Orhan

Add To collaction

محبت کا آخری سفر 

محبت کا آخری سفر از پری وش تالپور قسط نمبر10 آخری قسط

"آج اس کی شادی تھی واصف بلکل اپنی ماں جیسا سلجھا ہوا بہترین انسان تھا بینک میں مئنیجر تھا " "عائشہ کو ہنسا ہنسا کر پہلے دن ہی امپریس کردیا تھا ، حاجرا میڈم اسے بیٹی بنا کر لے جا رہی تھی ، اک ماں کی طرح اس کی ہر خوشی پوری کر رہی تھی ، اس کے چاچا اور ان کی بیویاں کزن سب اس کے پاس موجود تھے اور یہ سب حاجرا میڈم نے کیا تھا" "ایک سال کی ننھی مناہل اس کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی اس نے ان دونوں بچوں کو ایک ماں کی طرح گلے لگایا تھا، نامحرومی کا کرب وہ اچھی طرح سے جانتی تھی، وہ نہیں چاہتی تھی کے یے بچے کسی بھی رشتے کے لیے ترسیں ، "واصف نے اسے شادی پر کار گفٹ کی تھی شادی کے بعد اسے بہت سی محبتیں ملیں تھیں جس کے لیے وہ آج تک ترستی آئی تھی " "صبح روز جلدی اٹھ کر دو سال کے مصطفیٰ کو پہلے ناشتہ کرواتی تیار کرتی پھر گاڑی میں جاکر اسے خود اسکول چھوڑ آتی ، "مناہل کو وہ اپنے ساتھ کالج لے جاتی ورنہ پہلے آریان اسے اپنی آفس لے جاتا تھا حاجرہ نے کافی کہا کے وہ اپنی پوتی کو اپنے ساتھ کالج لے جائے گی، مگر آریان نے نہیں سنی اب عائشہ کی ضد کے آگے وہ ہار گیا تھا، "عائشہ سب کے لیے ناشتہ کھانا خود بناتی حالانکہ میڈ بھی تھی مگر وہ اپنے ہاتھ سے کھانا پکاکر کھلانا زیادہ پسند کرتی تھی، حاجرہ میڈم کچن میں اس کی بھرپور مدد کرتی تھی واصف اس کا دیوانہ ہو گیا تھا کچھ ہی دنوں میں" "واصف روز ماں بیوی اور بیٹی کو کالج ڈراپ کرتا پھر آفس جاتا آج جب وہ کالج چھوڑنے جا رہا تھا تو حاجرہ میڈم نے عائشہ کو اپنے ساتھ پیچھے بٹھالیا تھا، واصف ماں کی وجہ سے اس سے چپکے سے شرارتیں کر رہا تھا عائشہ اس کے چہرے کو دیکھتی بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کر رہی تھی" "واصف آج تم میرے ہاتھوں سے پٹوگے کیوں تنگ کر رہے ہو میری بہو کو آج میں نے اس کو اپنے ساتھ پیچھے بٹھایا تاکہ تم ڈھنگ سے بیٹھ سکو ڈرائیونگ پر توجہ دے سکو مگر نہیں تم نہیں سدھرنے والے" "عائشہ نے اپنے بیٹے کو تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا " "ہاں تو کیا کروں آپ نے اتنی پیاری دلہن دی ہے تو کون کافر اس کے ساتھ رہ کر خاموش رہے گا آپ نے آج ظلم کیا ہے اپنے بیٹے کے ساتھ میری بیوی کو اپنے ساتھ بٹھاکر بتاتا ہوں پاپا کو" "واصف نے ماں سے بولا اور عائشہ کو بیگ ویومرر سے آنکھ ماری اب عائشہ دل کھول کر ہنس رہی تھی واصف اسے محبت سے دیکھتا رہا ننھی مناہل بھی ماں کی دیکھا دیکھی میں کلکاریاں مارنے لگی حاجرہ میڈم نے دونوں کی نظر اتار لی" "عائشہ نے سوچا کیا یے محبت اسے آریان سے مل سکتی تھی کبھی نہیں جو شخص کسی ایک کا نہیں ہوسکا وہ میرا کبھی نا ہوتا، کیونکہ جو لڑکیوں میں انٹرسٹڈ ہو وہ شادی کے بعد بھی یہی کرتا ہے جو شخص اپنی پسند کو چھوڑ کر دوسری لڑکیوں میں دل بہلائے وہ کبھی ایک محبت نہیں کر سکتا ، اور وہ جو محبت کا دعویدار تھا وہ میری شادی کے تیسرے دن ہی شادی کر بیٹھا وہ کیا محبت کرتا ہوگا ، جو محبت کرتے ہیں وہ زندگی میں کبھی اس درد کو نہیں بھلا پاتے جیسے میرے دل میں آج بھی ایک کسک سی رہتی ہے آریان نے مجھ سے محبت اگر کی ہوگی تو بھی آج اس کے دل میں میری یاد بھی باقی نہیں ہوگی ، کیونکہ مرد محبت کو بھلانے میں سیکنڈ لگاتا ہے عورت کبھی نہیں بھول پاتی مگر کبھی ظاہر نہیں کرتی نا اس محبت کو کبھی باہر نکالتی ہے ، اپنے دل کے اندر کسی بند کونے میں قید کر دیتی ہے، کبھی نا نکالنے کے لیے میں اپنے اللہ کی بہت شکر گزار ہوں میرے اللہ نے مجھے بہت سی محبتوں سے نواز دیا" "اب زندگی میں کوئی غم نہیں اب خوشیوں کی باراتیں تھیں کچھ دنوں بعد اس کی گود میں ایک اور ننھی جان اس کے گھر میں روشنیاں ڈالنے آرہی تھی، وہ جتنا اپنے رب کا شکر ادا کرتی کم تھا، وہ تو بندہ نواز ہے کبھی اپنے بندوں کو برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا اسے محبت نہیں دی مگر اس کے بدلے میں اور بھی بہت سی محبتیں اس کے حصے میں ڈال دیں، جو جانتا تھا بچپن سے وہ محبتوں کے لیے ترستی آئی ہے اور اب سود سمیت ساری محبتیں لوٹا دیں تھیں " ختم شد

   0
0 Comments